تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی| سرکار نے ایک بارپھر مدارس کے سروے کا راگ الاپا ہے، جب کہ محکمۂ اقلیتی بہبود نے کچھ ماہ قبل سروے کا عمل مکمل کرلیا تھا،اس کے باوجود نئی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ مدارس کو ملنےوالی غیر ملکی فنڈنگ کے ثبوت تلاش کئے جاسکیں ۔
اترپردیش حکومت نے اس سلسلے میں ایک خصوصی جانچ کمیٹی تشکیل دی ہے ،جس میں اے ٹی ایس کے اے ڈی جی موہت اگروال کو صدر بنایاگیاہے ۔ان کے ساتھ محکمۂ اقلیتی بہبود کی ڈائریکٹر جے ریبھااور سائبر کرائم کے ایس پی تروینی سنگھ کو بطور معاون رکن شامل کیا گیاہے ۔کہاجارہاہے کہ یہ کمیٹی غیر ملکی فنڈ کی دریافت کے سلسلے میں چار ہزار مدارس کی جانچ کرے گی ۔پہلے یہ کمیٹی جانچ کا خاکہ تیار کرے گی ،اس کے بعد متعلقہ مدارس کو نوٹس بھیجاجائے گاتاکہ وہ آمدنی سے متعلق دستاویزکمیٹی کے سامنے پیش کرسکیں۔سوال یہ ہے کہ اس کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟جبکہ کچھ عرصہ قبل محکمۂ اقلیتی بہبود نے مدارس کی جانچ اور سروے کا عمل مکمل کیاتھا ۔جانچ کے دوران مدارس کو غیر ملکی فنڈنگ کے بارے میں کوئی ٹھوس حقائق دستیاب نہیں ہوئے تھے ۔اگر ایسا ہوتا تو اب تک اترپردیش سرکار ان مدارس کے خلاف اقدامی کاروائی کرچکی ہوتی ۔کیونکہ عرصۂ دراز سے مدارس کو بدنام کرنے اور انہیں مشکوک بنانے کا عمل جاری ہے ۔
ان تحقیقات کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے ۔دوبارہ جانچ سے پہلے محکمۂ اقلیتی بہبود سابقہ جانچ رپورٹ کو نئی کمیٹی کے سامنے پیش کرے گا،جس کے مطالعے کے بعد از سرنو جانچ شروع کی جائے گی۔سوال یہ ہے کہ جب محکمۂ اقلیتی بہبود نے جانچ کا عمل مکمل کرلیاہے تو پھر دوبارہ تفتیش کی ضرورت کیوں پیش آئی؟جبکہ مدارس کی جانچ اور کاروائی کا اختیار فقط محکمۂ اقلیتی بہبود کو حاصل ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آیا محکمۂ اقلیتی بہبود نے اپنی جانچ رپورٹ کو سرکار کے سامنے پیش نہیں کیا؟
اگر یہ رپورٹ وزیر اعلیٰ اور متعلقہ افسران کو پیش کی جاچکی ہے تو پھر خصوصی جانچ کمیٹی کو از سرنو اس رپورٹ کے مطالعے کے لئے کیوں کہاگیاہے ؟جبکہ محکمۂ اقلیتی بہبود نے قبول کیا تھاکہ مدارس کو غیر ملکی فنڈنگ کے بارے میں پختہ شواہد دستیاب نہیں ہوسکے ۔البتہ نیپال کی سرحد پر چل رہے مدارس کے بارے میں یہ کہاگیا تھاکہ ان کی آمدنی کے ذرائع بہت واضح نہیں تھے ۔ان میں سے زیادہ تر مدارس نے سروے کے دوران یہ کہاتھاکہ ان کی آمدنی کا ذریعہ زکات اور عوامی چندہ ہے جو مختلف شہروں سے حاصل ہوتاہے ۔جبکہ کئی مدرسوں کے بارے میں دعویٰ کیاگیاکہ انہوں نے غیر ملکی فنڈنگ کی بات قبول کی ہے ،تو پھر ایسے مدارس کو نوٹس کیوں جاری نہیں کیاگیا؟تاکہ یہ انکشاف ہوتاکہ غیر ملکی فنڈنگ کے ذرائع کیاہیں۔ کیونکہ بیرون ہند موجود ہندوستانی بھی مدارس کو چندہ دیتے ہیں ،جس طرح تمام ہندوستانی تنظیموں ،اداروں اور سیاسی جماعتوں کو چندہ موصول ہوتاہے ۔لہذا غیر ملکی فنڈنگ کے نکات کو مزید روشن کیاجانا چاہیے۔
مدارس کے متعلق حکومت کا یہ بھی کہناہے کہ غیر منظور شدہ مدارس کو چلتا ہوا پایا گیا تو سخت کاروائی کی جائے گی اور جرمانہ بھی عائد کیاجائے گا۔آیا ہندوستان میں مدارس کے قیام کے لئے حکومتی منظوری شرط اساسی ہے ؟ کیا ہندوستان میں قائم تمام مذہبی ادارے اور تنظیمیں حکومت سے تسلیم شدہ ہیں ؟ ہندوستان میں زیادہ تر مدارس عوامی چندے پر منحصر ہیں ،جنہیں سرکارسے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔مدرسوں کو شرعی رقومات اور چندہ دیا جاتاہے جس کا حساب و کتاب مدارس کے پاس ہونا چاہیے ۔ممکن ہے کہ حساب و کتاب میں شفافیت نہ ہو ،اس کے لئے ملّی سطح پر اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔
واقعیت یہ ہے کہ حکومت مدارس کے کردار اور مسلمانوں کے درمیان تعلیمی بیداری سے خوف زدہ ہے ۔حکومت بخوبی جانتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت مدارس سے بنیادی تعلیم حاصل کرتی ہے ،کیونکہ غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کی بناپر وہ عصری تعلیم گاہوں میں بچوں کو پڑھانےکے لائق نہیں ہوتے ۔مسلمانوں میں تعلیم کی شرح مدارس کی بناپر ہے ،اگر مدارس کو بند کردیا جائے گا تو دوردراز کے علاقوں میں خاص طورپر تعلیم کی شرح سست پڑ جائے گی۔
دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ حکومت مدارس کی حیثیت کو بدنام اور مشکوک کرنا چاہتی ہے ۔یہ عمل گذشتہ کچھ سالوں سے جاری ہے ۔یرقانی تنظیموں کے اراکین مسلسل یہ کہتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں کہ مدارس دہشت گردی کا مرکز ہیں ۔انہیں انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے کے لئے غیر ملکی فنڈنگ ہوتی ہے ۔ان کا نصاب تعلیم شدت پسندی کا درس دیتاہے اس لئے نصاب کو بدلا جانا چاہیے ۔یہ وہ الزامات ہیں جو ایک عرصے سے مدارس پر عائد کئے جاتے رہے ہیں ۔
یہ اعتراضات ان لوگوں کی طرف سے وارد ہوتے ہیں جن کا ہندوستان کی آزادی میں کوئی کردار نہیں رہا،مگر افسوس آج وہ اقتدار پر قابض ہیں یا مقتدر شخصیات کی پناہ میں ہیں ۔ورنہ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ ۱۸۵۷ پہلی جنگ آزادی سے لے کر ۱۹۴۷ استقلال ہند کی کامیاب تحریک تک مدارس کے کردار اور علما کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔اس پر بھی وہ ایرادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کی جدوجہد اور قربانیوں کے عوض میں پاکستان دیدیاگیا تھا،اس لئے اب انہیں ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔اول تویہ کہ پاکستان مسلمانوں کی قربانیوں کا معاوضہ نہیں ہوسکتا۔اگر تمام مسلمان جناح کی حکمت عملی اور قیام پاکستان کو تسلیم کرلیتے تو آج وہ ہندوستان میں نہیں ہوتے ۔اگر تقسیم مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر ہوتی تو پاکستان کے جغرافیائی حدود اس قدر محدود نہیں ہوتے بلکہ اس تقسیم میں مزید توسیع کی گنجائش ہوتی ۔چونکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان کے قیام اور جناح کے دو قومی نظریے کو مسترد کیا تھا اس لئے تقسیم کے وقت پاکستان کو آبادی کےتناسب سے حصہ دیاگیا ۔لہذا یہ کہنا کہ مسلمانوں کو ان کی قربانی کا معاوضہ پاکستان کی شکل میں دیدیا گیا ،غیر سیاسی اور احمقانہ بیان ہے ۔
مدارس کی جانچ کے عمل پرکسی کو اعتراض نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے ۔مگر ہمیشہ سرکار کی سوئی مدرسوں کی جانچ پر آکر کیوں ٹھہر جاتی ہے ؟ اس ملک میں دیگر قوموں کے مذہبی اور قومی ادارے بھی موجود ہیں ان کی جانچ کا حکم کیوں نہیں دیاجاتا؟ سرکار کے وُزرا اور اراکین متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ مدرسے ’دہشت گردی کا مرکز ہیں ‘ لیکن آج تک ایسے مفسد عناصر مدرسوں کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکے ۔مدرسوں کو دہشت گردی کا مرکز کہنے والے نفسیاتی اور ذہنی مریض ہیں جنہیں مسلم اداروں کی موجودگی کھٹکتی ہے ۔مدرسوں کے نصاب تعلیم کے معیار پر بات ہوسکتی ہے ،اساتذہ کی لیاقت پر تبصرہ کیاجاسکتاہے ،مدرسوں میں مالی شفافیت کے مسائل موجود ہیں ان پر بات ہوسکتی ہے ،موروثی نظام کاخاتمہ اور نئے نظام کو متعارف کروایا جاسکتا ہے، مدارس کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ ہوسکتاہے،اسکے علاوہ دیگر مسائل اور فکری نکات ہیں جن پر غوروخوض ممکن ہے ۔لیکن یہ حکم کہ تنہا مسلمانوں کے اداروں اور مدرسوں کی جانچ کی جائے ،ایک غیر عادلانہ فیصلہ ہے ۔
سرکار صرف ان مدرسوں کی جانچ کا حکم دے سکتی ہے جو اس سے امداد پاتے ہیں ۔اس کے علاوہ غیر سرکاری مدرسوں کی جانچ کا حکم آمرانہ فیصلہ ہے جس کی مسلمانوں کی طرف سے مخالفت ہونی چاہیے۔
مدارس کو دہشت گردی کا مرکز کہنے والے اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے ۔مدارس میں فقط دینی تعلیم دی جاتی ہے ،ہتھیاروں کی تربیت نہیں دی جاتی ۔ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید اور دیگر علمی و ادبی کتابیں ہوتی ہیں ،ترشول اور تلواریں نہیں ہوتیں ۔جبکہ مذہبی مقامات پر ہتھیاروں کی تربیت یرقانی تنظیموں کا معمول بن گیاہے ۔اس کے علاوہ انکے قائم کردہ اسکولوں میں مسخ شدہ تاریخ اور ان کا نظریاتی ایجنڈہ پڑھایاجارہاہے ۔کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان کی تنظیموں کے افراد موجود ہیں جو اساتذہ اور طلبا کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ سرکار ی سرپرستی میں ہورہاہے اس لئے کسی کو ان کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں ہوتی۔مدارس کے طلبا کبھی پاکستان کے لئے جاسوسی کرتے ہوئے گرفتار نہیں ہوئے ،لیکن گذشتہ کئی سالوں میں حکومتی اداروں اور ملک کےمختلف علاقوں سے ایسےافراد کوگرفتار کیا گیا جو پاکستان کے لئے جاسوسی کرتے تھے اور ان میں سے کسی کا تعلق مسلمانوں سے نہیں تھا،لیکن ان خبروں کو چھپادیا گیا۔
افسوس یہ ہے کہ مسلمان قیادت بھی ان مسائل پر مہربلب ہے ۔انہیں چاہیے کہ اب خاموشی اور تملق پرستی کے بجائے سرکار کی آمریت اور اقلیتوں کی مسلسل ہورہی حق تلفی کے خلاف آواز بلند کریں ۔اس سلسلے میں ایسے دانشوروں کو بھی آگے آناچاہیے جنہیں قوم کی رہبری کا ہوکاہے ۔رہبری فقط پریس کانفرنس منعقد کرنے اور اخباری بیان بازی سے حاصل نہیں ہوتی ۔قیادت قربانی چاہتی ہے اور یہ وقت خاموشی کا نہیں ہے ۔
آپ کا تبصرہ